واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 حضرت سیدنا امام باقر

رضی اللہ تعالٰی عنہ

 

آپ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی ولادت باسعادت بروز جمعہ یکم رجب ۵۷ ہجری کو ہوئی آپ حضرت زین العابدین  رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فرزندہیں آپ کانام اپنے جد بزرگوار حضرت رسول خدا کے نام پر محمد تھا اور باقر لقب۔ اسی وجہ سے امام محمد باقر   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے نام سے مشہور ہوئے۔ یہ آپ ہی کو خصوصیت ہے کہ آپ کا سلسلہ نسب ماں اور باپ دونوں طرف حضرت رسول خدا تک پہنچتا ہے۔ دادا آپ کے سید الشہداء حضرت امام حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے جو حضرت رسول خدامحمدمصطفےٰ کے چھوٹے نواسے تھے اور والدہ آپ کی ام عبد اللہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا حضرت امام حسن   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی صاحبزادی تھیں جو حضرت رسول کے بڑے نواسے تھے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تین برس امام محمد باقر   رضی اللہ تعالٰی عنہ  اپنے جد بزرگوار حضرت امام حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زیرِسایہ رہے . جب آپ کاسن پورے تین سال کا ہوا تو امام حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مدینہ سے سفر کیا ۔ا س کم سنی میں امام محمد باقر   رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی راستے کی تکلیفیں سہنے میں ا پنے بزرگوں کے شریک رہے ۔ امام حسین   رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مکہ میں پناہ لی . پھر کوفہ کاسفر اختیار کیا اور پھر کربلا پہنچے . ساتویں محرم سے جب پانی بند ہوگیا تو یقیناً امام محمدباقر نے بھی تین یوم پیاس کی تکلیف برداشت کی ۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

حضرت امام محمد باقر   رضی اللہ تعالٰی عنہ بھر پور جوانی کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے ایک ساتھ جسمانی وروحانی کمال کے بلند نقطہ پر تھے۔ جب آپ کے والد بزرگوار حضرت امام زین العابدین   رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت ہوئی توحضرت نے ا پنے وقت وفات ایک صندوق جس میں اہلِ بیت   رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مخصوص علوم کی کتابیں تھیں امام محمد باقر   رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سپرد کیا نیز اپنی تمام اولادکوجمع کرکے ان سب کی کفالت وتربیت کی ذمہ داری اپنے فرزند امام محمد باقر   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے سپرد کیں۔

امام محمدباقر   رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ میں جب ملکی حالات اہل بیت کے حق میں بہتر ہوئے تو علوم اہلِبیت   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کا دریا پوری طاقت کے ساتھ امنڈااور ہزاروں پیاسوں کو سیراب کرتا ہوا ،شریعت حقہ اور احکام الٰہی کے کھیتوں کو سرسبز بناتا ہوا دنیا میں پھیل گیا . اس علمی تبحر اور وسعت معلومات کے مظاہرے کے نتیجے میں آپ کا لقب باقر   رضی اللہ تعالٰی عنہ  مشہور ہوا . اس لفظ کے معنی ہیں اندرونی باتوں کامظاہرہ کرنے والا چونکہ آپ نے بہت سے پوشیدہ مطالب کو ظاہر کیا اس لیے تمام مسلمان آپ کو باقر   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے نام سے یاد کرنے لگے . آپ سے علوم اہلبیت   رضی اللہ تعالٰی عنہحاصل کرنے والوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچی ہوئی ےتھی ۔زہری امام اوزاعی اور عطاربن جریح، قاضی حفض بن غیاث وغیرہ یہ سب امام محمد باقر   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کے شاگردوں میں محسوب ہیں۔

آپ کے اخلاق وہ تھے کہ دشمن بھی قائل تھے چنانچہ ایک شخص اہل شام میں سے مدینہ میں قیام رکھتا تھا اور اکثر امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس آ کر بیٹھا کرتا تھا- اس کا بیان تھا کہ مجھے اس گھرانے سے ہرگز کوئی خلوص و محبت نہیں مگر آپ کے اخلاق کی کشش اور فصاحت وہ ہے جس کی وجہ سے میں آپ کے پاس آنے اور بیٹھنے پر مجبور ہوں-

اس زمانے میں حکومتِ اسلام کی طرف سے اس وقت تک کوئی خاص سکہ نہیں بنایا گیا تھا- بلکہ رومی سلطنت کے سکے اسلامی سلطنت میں بھی رائج تھے- ولید بن عبدالملک کے زمانہ میں سلطنت شام اور سلطان روم کے درمیان اختلافات پیدا ہو گیا- رومی سلطنت نے یہ ارادہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے سکوں پر پیغمبر اسلام کی شان کے خلاف کچھ الفاظ درج کرا دے گی اس پر مسلمانوں میں بڑی بے چینی پیدا ہو گئی- ولید نے ایک بہت بڑا جلسہ مشاورت کے ليے منعقد کیا جس میں عالم السلام کے ممتاز افراد شریک تھے- اس جلسہ میں امام محمد باقر علیہ السلام بھی شریک ہوئے اور آپ نے یہ رائے دی کہ مسلمان کو خود اپنا سکہ ڈھالنا چاہئے جس میں ایک طرف لاالٰہ الااللّٰہ اور دوسری طرف محمد رسول اللّٰہ نقش ہو- امام   رضی اللہ تعالٰی عنہ  کی اس تجویز کے سامنے سر تسلیم خم کیا گیا اور اسلامی سکہ اس طور پر تیار کیا گیا۔

آپ ۷ ذوالحجہ ۱۱۴ ہجری کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔آپ کو حسب وصیت تین کپڑوں کا کفن دیا گیا جن میں سے ایک وہ یمنی چادر تھی جسے اوڑھ کر آپ بروز جمعہ نماز پڑھتے تھے اور ایک وہ پیراہن تھا جسے آپ ہمیشہ پہنے رہتے تھے۔آپ کو جنت البقیع میں اسی قبہ میں جہاں حضرت امام حسن   رضی اللہ تعالٰی عنہاور امام زین العابدین   رضی اللہ تعالٰی عنہ  محو استراخت ہیں سپرد خاک کیا گیا۔